یہ سب بھی زندگی کا حصہ ہے
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 11)
تحریر: محمد اسلم
گلاسگو میں مقیم میرا نواسہ حذیفہ کئی برسوں سے کان کی ایسی تکلیف میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے اس کا 9مرتبہ اپریشن کیا جا چکا ہے۔ 15 سالہ حذیفہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور تین بہنوں کا چھوٹا بھائی ہے ۔ وہ ہائی سکول میں پڑھتا ہے اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔میں 20 مئی کی شب گلاسکو پہنچا تو وہ اپنے والد کے ساتھ مجھے لینے کے لیے ایئرپورٹ پر آیاہوا تھا ۔میں نے اسے کئی برسوں کے بعد دیکھا تھا ، اس کے قد کی اٹھان دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ وہ بچپن کی حدود سے نکل کر لڑکپن کی شاہراہ پر قدم رکھ چکا ہے ۔ انسان کو اپنی اولاد کی اولاد سے ایک منفرد محبت ہوتی ہے ۔ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو بڑھتا اور پھلتا پھولتا دیکھ کر انسان کو اپنے بیٹے بیٹیوں کا بچپن یاد آجاتا ہے۔ میں جتنے دن بھی گلاسگو میں رہا ،حذیفہ میرے پاس ضرور بیٹھتا تھا۔ وہ بہت تیزی اور روانی کے ساتھ گلاسگو کے مقامی لہجے میں انگلش بولتا ہے لیکن اردو بولنے کے لیے اسے خاصی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ گلاسگو میں آنکھ کھولنے اور تعلیم پانے والے پاکستانی بچے بالکل ویسی ہی انگلش بولتے ہیں جیسی وہاں کے مقامی لوگ بولتے ہیں۔ یہ انگلش سمجھنا پاکستان سے جانے والے عام ادمی کے لیے آسان نہیں۔ ان بچوں کی گفتگو کی رفتار ایسی ہے کہ والدین کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ آہستہ بولیں۔
حذیفہ سکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے اور وہ حفظ کی کلاس بھی لیتا ہے۔ ایک روزمیرے بھتیجے (حذیفہ کے والد) فاروق شہزاد نے مجھے بتایا کہ حذیفہ کے کان کا 30 مئی کو آپریشن ہوگا۔ فاروق نے مزید بتایا کہ یہ کافی سیریس آپریشن ہے۔ کان کے پچھلے حصے کی جانب دماغ کے قریب انفیکشن ہو جاتا ہے اور پیپ پڑ جاتی ہے ۔ایسا بار بار کیوں ہو رہا ہے؟ ڈاکٹر تاحال سمجھ نہیں پائے۔ ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ انفیکشن خدانخواستہ دماغ تک نہ پہنچ جائے اس لیے بار بار اپریشن کیا جا رہا ہے۔ میں نے یہ خبر سنی تو میرا دل بیٹھنے لگا اور دماغ میں طرح طرح کے خدشات سر اٹھانے لگے۔
حذیفہ کو بھی معلوم تھا کہ اس کا آپریشن ہونے والا ہے لیکن اس کا رویہ بالکل نارمل تھا۔ آپریشن کی سنگینی سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود اس نے کسی قسم کی بے چینی کا اظہار نہ کیا ۔30 مئی کی صبح اس کے والدین اسے لے کر ہسپتال جانے لگے تو میں دروازے پر پہنچا اور اسے گلے لگایا اور اللہ کے سپرد کرتے ہوئے روانہ کر دیا ۔ہسپتال گھر سے آٹھ میل دور ہے۔ موبائل فون کے جہاں نقصانات ہیں، وہاں فائدے بھی ہیں۔ حذیفہ ہسپتال پہنچا تو اس کے والدین و ٹس ایپ کے ذریعے اس کی تازہ ترین تصویریں اطلاعات کے ساتھ ارسال کرتے رہے اور ہمیں لمحہ لمحہ کی صورت حال معلوم ہوتی رہی۔
حذیفہ کا سات گھنٹے طویل اپریشن ہوا ، آپریشن صبح ساڑھے نو بجے شروع ہو کر سہ پہرساڑھے چار بجے مکمل ہوا جس کے بعد فاروق نے مجھے اطلاع دی کہ الحمد للہ ، کامیاب آپریشن کے بعد اب حذیفہ کو کمرے میں لے آئے ہیں، وہ کچھ غنودگی میں ہے لیکن ہوش میں آرہا ہے ۔یہ خبر سن کر میں اور میرے بڑے بھائی محمد ادریس کار پر ہسپتال کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم ہسپتال پہنچے تو فاروق اور ہماری بیٹی سے ملاقات ہوئی۔ حذیفہ بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اسے کچھ کچھ ہوش تھا۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ بالکل نہیں تھی ،ہم ایک گھنٹہ ہسپتال میں بیٹھے رہے، ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی اور پھر ہم گھر لوٹ آئے۔
حذیفہ نے 30 مئی کی رات ہسپتال میں گزاری ۔اس کا والد فاروق اس کے ساتھ ہسپتال میں رہا۔ دوسرے روز ڈاکٹروں نے اسے چھٹی دے دی اور ڈیڑھ بجے وہ گھر پہنچ گیا۔ حذیفہ کارسے نکل کر گھر کے اندر داخل ہوا تو میں آبدیدہ ہو گیا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ میرے نواسے کا آپریشن خیر و عافیت کے ساتھ مکمل ہوا۔ حذیفہ نے ایک آدھ دن آرام کیا اور پھر گھر میں نارمل طریقے سے اٹھنے بیٹھنے لگا۔آپریشن کی کامیابی پر سب گھر والے بہت خوش تھے اور خاندان کے لوگ بھی حذیفہ سے ملنے اور اس کی تیمارداری کرنے کے لیے آرہے تھے جس کی وجہ سے گھر میں رونق لگی رہی۔ گھر میں مچھلی کی ڈش”فش فنگر ” (FISH FINGER ) فرائی کی گئی ۔ بغیر کانٹے کے مچھلی میری پسندیدہ ڈش ہے اور میں بہت رغبت سے کھاتا ہوں۔ میری طرح فاروق بھی مچھلی بہت پسند کرتا ہے ۔برطانیہ میں عام گھروں میں بھی لوگ” فش اینڈ چپس” (FISH AND CHIPS)بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ گھروں میں لوگ تیسرے چوتھے دن یہ مچھلی ضرور پکاتے ہیں۔ پاکستان کی طرح برطانوی سمندر میں بھی کئی اقسام کی مچھلی پائی جاتی ہے ۔ گوروں اور پاکستانیوں کے گھروں میں عام طور پر” کوڈ” (CORD) اور ”ہیڈوک” (HADDOCK)مچھلی زیادہ کھائی جاتی ہے۔ ہیڈوک مچھلی کا ریٹ 6 سے8 پونڈفی کلو گرام ہے۔ پاکستانی روپوں میں یہ نرخ 2500 روپے فی کلو بنتا ہے۔ کوڈ مچھلی اس سے بھی مہنگی ہے اور اس کا ریٹ 14 پونڈ فی کلو گرام ہے۔
کوڈ اور ہیڈوک مچھلی میں کانٹا نہیں ہوتا ۔ بچے بہت شوق سے چپس کے ساتھ مچھلی کھاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گروسری شاپ پر فش فنگر (FISH FINGER )کے پیکٹ بھی ملتے ہیں۔یہ سیمی فرائی یعنی نیم تلی ہوئی شکل میں ہو تے ہیں۔ برطانیہ میں کسی کی مہمان داری کرنی ہو اور چائے کے ساتھ کھانے کی کوئی چیز پیش کرنی ہو تو سب سے زیادہ جلدی تیار ہونے والی چیز فش فنگر (FISH FINGER ) ہی ہے۔ اس کی تیاری میں صرف دس بارہ منٹ لگتے ہیں۔ پاکستان سے جانے والے حضرات کے لیے مچھلی اس لیے بھی بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے کہ برطانیہ میں عام طور پر شدید سردی ہوتی ہے۔درجہ حرارت 15سنٹی کریڈ ہو تو گرما گرم مچھلی کھانے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
ہماے ہاں پاکستان میں نجانے کس نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ مچھلی صرف ان مہینوں میں کھانی چاہیے جن کے نام میں ”ر” کا حرف آتا ہے یعنی ستمبر سے اپریل تک مچھلی کھائی جانی چاہیے اور مئی، جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں مچھلی سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔ شاید گرم موسم کی وجہ سے یہ بات گھڑ لی گئی ہے۔برطانیہ میں مچھلی کا استعمال 19 کلوگرام فی فردسالانہ ہے جبکہ چین میں ایک فرد 38 اور جاپان میں 47 کلو سالانہ مچھلی استعمال کرتا ہے۔ ہندوستان میں اوسطاً ایک فرد ایک سال میں7 کلو مچھلی استعمال کرتا ہے شاید ان کا ساحل زیادہ طویل ہے لیکن پاکستان میں یہ شرح صرف2کلو گرام فی فرد سالانہ ہے ۔ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ غذائیت سے بھرپور آئٹم ہم بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں ۔ہمارے گرمی کے مہینوں میں گرم تاثیر والی دیگر اشیا توکھاتے پیتے رہتے ہیں لیکن مچھلی سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے عام بازاروں میں مچھلی کی فروخت بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مچھلی 12 مہینے کھائی جا سکتی ہے اور گرمی کے چار مہینوں میں مچھلی کھانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔کراچی میں ہر وقت وافر مقدار میں مچھلی موجود ہوتی ہے اور ذرا سی توجہ سے اسے پورے پاکستان میں سپلائی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مختلف فوڈ کمپنیز اگر کارخانے لگائیں تو مچھلی کو پروسیس کر کے فش فنگر کی صورت دی جا سکتی ہے اور یہ ڈش پاکستان میں بہت زیادہ مقبول ہو سکتی ہے ۔ یہ سموسوں ، پکوڑوں اور کبابوں کی جگہ مہمانوں کی تواضع کرنے کے لیے ایک بہترین چیز ہے جو بہت کم وقت اور مناسب اخراجات میں تیار ہو جاتی ہے ۔ (جاری ہے)