اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
پانچ ہفتے برطانیہ میں (قسط 9)
تحریر: محمد اسلم
مجھے برطانیہ پہنچے ہوئے آٹھ روز ہو چکے تھے اور میں اپنی کتاب” گلاسگو کے اولین پاکستانی” کے لیے مواد کی فراہمی کے سلسلے میں انٹرویوز میں مصروف تھا کہ میرے بھتیجے فاروق شہزاد نے بتایا کہ گلاسگو سے 10 میل دور ایک قصبے BELLS HILLمیں صوبہ سکاٹ لینڈ کی تبلیغی جماعت کے اجتماع کا آخری روزہے۔ فاروق شہزاد نے مجھے بھی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی اور مزید بتایا کہ اس اجتماع میں انگلینڈ سے چند بزرگ بھی آرہے ہیں جن میں تبلیغی جماعت برطانیہ کے سابق امیر حافظ پٹیل مرحوم کے بیٹے مولانا سعید پٹیل بھی شامل ہیں۔ حافظ پٹیل وہ شخصیت تھے جنہوں نے برطانیہ میں تبلیغی جماعت کے قیام اور پھر برطانیہ اور ارد گرد کے ممالک میں تبلیغی وفود کو بھیجنے کے سلسلے میں انتھک محنت کی اور ان کی کاوشوں سے آج برطانیہ سمیت پورے یورپ میں تبلیغ کا کام خوب پھل پھول رہا ہے۔ حافظ پٹیل کے بیٹے کا نام سن کر اور ان کی شرکت کی خبر ملنے پر میں نے اجتماع میں حاضری دینے کا فیصلہ کیا ۔ میرا دوسرا بھتیجا شعیب بھی میرے ساتھ ہولیا اور دوسرے روز 29 مئی کو ہم BELLS HILLپہنچے جہاں مقامی مسلمانوں نے شہر کے باہر کھلی جگہ میں انتہائی شاندار مسجد تعمیر کی ہے۔ تین روزہ تبلیغی اجتماع کا یہ آخری دن تھا جس میں شرکت کے لیے مختلف شہروں سے لوگوں کی کثیر تعداد یہاں پہنچی تھی۔ ہم 11 بجے اجتماع گاہ میں پہنچے تو ڈاکٹر صادق کا بیان جاری تھا اور وہ اللہ کے راستے میں نکلنے والی جماعتوں کو ہدایات دے رہے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ 6 ساتھیوں پر مشتمل ایک جماعت امریکہ جبکہ باقی دیگر جماعتیں برطانیہ کے مختلف مقامات پر جا رہی ہیں ۔ ڈاکٹر صادق گلاسگو ہی میں رہتے ہیں ۔وہ مشہور سرجن ہیں، انہوں نے پیشہ ورانہ مصروفیات سے ریٹائر منٹ کے بعد اپنی باقی زندگی تبلیغی جماعت کے لیے وقف کر دی ہے۔ یہ بہت بڑی سعادت ہے اور توفیق کی بات ہے۔ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے دین کا کام کرنے کے لیے چن لیتا ہے۔ ڈاکٹر صادق کے بعد مولانا سعید پٹیل کا اختتامی بیان ہوا۔ میں نے 60 سالہ مولانا سعید پٹیل کو پہلی بار دیکھا۔ ان کے والد حافظ پٹیل کا 2019 میں انتقال ہو اتھا۔ حافظ پٹیل کا تعلق انڈیا سے تھا۔ میں نے ان کو 2017 کے لگ بھگ رائے ونڈ میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ ان کے بیٹے مولانا سعید پٹیل نے انتہائی موثر لہجے میں دعا کی، اجتماع میں شریک لوگ اللہ تعالی کے دین کی سربلندی اور پیغام حق کو دنیا بھر میں پہنچانے کے سلسلے میں توفیق الہی طلب کر رہے تھے۔ دعا کے اختتام پر فاروق شہزاد مجھے مولانا سعیدکے پاس لے گیا ۔مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ مولانا سعید پٹیل غائبانہ طور پر مجھ سے متعارف اورمیرے تصنیفی ذوق کے بارے میں بخوبی آگاہ تھے ۔مجھے دیکھتے ہی بولے کہ کوئی کتاب تبلیغ کے حوالے سے بھی لکھیں۔دوران گفتگو پتہ چلا کہ امریکہ جانے والی جماعت چھ افراد پر مشتمل ہے۔ عام طور پر یہ لوگ چار ماہ کے لیے اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں۔ ملاقات کے بعد فاروق نے ہمیں کھانے کے لیے بٹھا لیا ۔تقریباً 300 افراد شریک طعام تھے۔
برطانیہ میں تبلیغی جماعت کا کام 1950 کے عشرے میں چند افراد نے شروع کیا اور 1960 کے عشرے میں ہندوستان کے حافظ پٹیل صاحب نے ”DEWSBURY”میں کام کی بنیاد ڈالی۔ انہوں نے تبلیغ کے سلسلے میں مختلف جماعتوں کو برطانیہ کے شہروں میں بھیجا۔ رائیونڈ دنیا بھر میں تبلیغی جماعت کا اہم مرکز ہے۔ حافظ پٹیل صاحب کی پرخلوص مساعی کو دیکھ کر رائیونڈ والوں نے انہیں مدعو کر کے ہدایات دیں اور ان کی بھرپور سرپرستی بھی کی ۔تبلیغ کے کام میں اللہ تعالی کی طرف سے برکت ہوتی ہے،دیکھتے ہی دیکھتے یہ کام برطانیہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پھیل گیا۔ ہر شہر میں جماعتیں نکلنے لگیں۔ برطانیہ سے جماعتوں کو 1980 کے عشرے میں سعودی عرب، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش تک بھی بھیجا جانے لگا ۔تشکیل پانے والے وفود میں اکثریت پاکستانیوں کی ہوتی ہے اور بھارتی ، بنگلہ دیشی اور عرب بھی شامل ہوتے ہیں۔ حافظ پٹیل کی کاوشوں سے جماعت کے کام کو بہت تقویت حاصل ہوئی اور برطانیہ میں سینکڑوں مساجد تعمیر کی گئیں حتی کہ انگریزوں کے کئی خالی چرچوں کومساجد میں تبدیل کیاگیا ۔
حافظ پٹیل کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے60 سالہ مولانا سعید پٹیل ان کی چھوڑی ہوئی ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہے ہیں ۔سکاٹ لینڈ کی آبادی 50 لاکھ ہے،یہاں ہر بڑے شہر میں جماعتوں کا قیام ہے۔ میرا بھتیجا فاروق شہزاد 1990کے لگ بھگ تبلیغی جماعت میں متحرک ہوا۔ وہ گزشتہ 30 برسوں سے برطانیہ کے مختلف علاقوں کے علاوہ تبلیغ کے لیے ساؤتھ افریقہ، امریکہ ،پاکستان اور سعودی عرب بھی جا چکا ہے۔ فاروق تبلیغ کے کام سے جنون کی حد تک وابستہ ہے۔ اس نے اپنے بچوں اور بچیوں کو بھی اس کام میں لگا یا ہوا ہے۔ خود بھی دن رات مسجد سے تعلق برقرار رکھتا ہے اور جماعت کی روز کی کارروائی میں شریک ہوتا ہے۔ اس نے اب گلا سگو سے دس میل دور DARNLEY کے قصبے میںرہائش اختیار کر لی ہے۔ فطری بات ہے کہ نئی جگہ پر منتقل ہونے کے بعد آدمی وہاں مختلف ضروریات کی فراہمی کا انتظام کرتا ہے۔ فاروق شہزاد پر اللہ تعالی کا یہ کرم ہے کہ اس نے DARNLEYمنتقل ہونے کے بعد یہ محسوس کیا کہ یہاں نماز باجماعت کا انتظام ہونا چاہیے اور کارپوریشن سے اجازت لے کر” مصلی” تیار کیا۔ ایک دوست نے ”مصلے ”کے لیے اپنی فیکٹری کا کچھ حصہ دے دیا اور ساتھیوں سے مل کر 100کے قریب نمازیوں کے لیے انتظام کر لیا گیا ۔DARNLEYکی آبادی تین، چار سو ہے ۔مصلی قائم کرنا آسان نہیں ہوتا ،کارپوریشن کی شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں۔ تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے میں سوچ رہاتھا کہ چندپر خلوص اور انتھک لوگ برطانیہ جیسے ممالک میں، جہاں ہر طرف برائی کا اندھیرا ہے ،دین کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ اس تاریکی میں دین کا چراغ روشن کرنا معمولی کام نہیں ۔ احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
جاری ہے